’غزہ کے بحران سے کچھ بہتر نتائیج نکل سکتے تھے‘
برطانوی وزیرِ خارجہ ولیم ہیگ نے
کہا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مسئلے کو حل کرنے کے لیے امریکہ
’موثر رہنمائی‘ کرے۔ انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کے مسئلے کے حل کے لیے
بھرپور کوشش کا وقت آ گیا ہے۔
بی بی سی کے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے ولیم
ہیگ نے کہا کہ امریکہ کے اسرائیل کے ساتھ خصوصی تعلقات ہیں جو کسی اور ملک
کے نہیں اور اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے امریکہ کو اب انتخاب کے بعد اس مسئلے
پر رہنمائی کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ مسئلے کے حل میں یقیناً یورپی یونین اور عرب ممالک کا بھی کردار ہے اور ان کی کوشش بھی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے کے مستقل حل کے لیے شاید دو ریاستی فارمولے پر عمل کا اب آخری موقع ہے۔
ولیم ہیگ کا کہنا ہے کہ ہم کہہ سکیں گے کہ غزہ کے تکلیف دہ بحران کے بعد ’کچھ بہتری‘ ہوئی ہے اگر غزہ آنے اور جانے کا راستہ کھولنا ممکن ہوجائے اور علاقے میں اسلحہ کی سمگلنگ رک جائے۔
دریں اثناء فلسطینی صدر محمود عباس اقوامِ متحدہ سے فلسطین کو بغیر رکنیت کے مبصر کا درجہ دینے کی حمایت کا مطالبہ کرنے والے ہیں۔
اسرائیل فلسطین کو یہ درجہ دیے جانے کے خلاف ہے اس کا کہنا ہے کہ یہ 1993 کے اوسلو معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
محمود عباس پیر کو اقوامِ متحدہ کے لیے روانہ ہو رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی رکنیت حاصل کرنے کی فلسطینی رہنما کی کوشش گزشتہ سال اس وقت ناکام ہو گئی تھی جب امریکہ نے اس کی درخواست کو ویٹو کر دیا تھا۔
اب نئی درخواست کے لیے سلامتی کونسل کی منظوری کی ضرورت ہوگی۔
مسٹر عباس پر مغربی ممالک اور خاص طور پر امریکہ نے دباؤ ڈالا تھا کہ وہ اقوامِ متحدہ کی رکنیت کی درخواست واپس لے لیں۔
تاہم فلسطینی رہنما کا کہنا ہے کہ انہیں پورا یقین ہے کہ انہیں اس سلسلے میں بین الاقوامی حمایت حاصل ہوگی۔
مبصر کا درجہ ملنے سے فلسطین کو اہم اداروں تک رسائی حاصل ہو جائے گی جن میں ہیگ میں جرائم سے متعلق بین الاقوامی عدالت بھی شامل ہے۔
گزشتہ ہفتے ہی حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی طے پائی ہے۔
اسرائیل اور غزہ میں حماس کے درمیان آٹھ روز تک جاری رہنے والی لڑائی میں 158 فلسطینی اور چھ اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔
0 comments:
Speak up your mind
Tell us what you're thinking... !