Headlines News :
Home » » ’تعلقات میں بہتری کے لیے اچھی نیت ضروری‘

’تعلقات میں بہتری کے لیے اچھی نیت ضروری‘

Written By Unknown on Saturday, November 17, 2012 | 5:22 AM

جنرل پرویز مشرف
جنرل پرویز مشرف ہندوستان ٹائمز لیڈرشپ کانفرنس میں حصہ لے رہے ہیں۔
پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے کہا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعات کو حل کرنے کے لیے دونوں ہی طرف سے ’اچھی نیت‘ کی ضرورت ہے۔
ہندوستان ٹائمز ليڈرشپ سربراہ کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے بھارت میں موجود پرویز مشرف نے کہا کہ بھارت اور پاکستان صدیوں ساتھ رہے ہیں، دونوں ممالک کے درمیان جغرافیائی، تاریخی، سماجی، ثقافتی قربت رہی ہے لیکن آج حالات یہ ہیں کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہیں، باہمی یقین مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے اور ہم دشمن بن گئے ہیں۔
مشرف نے کہا کہ اکیسویں صدی جيواکانومكس یعنی جغرافیائی معیشت کی ہے۔ ’ہمیں مستقبل کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا راستہ اپنانا ہوگا‘۔ انہوں نے کہا کہ، ’ آگے بڑھنے کے لیے دونوں طرف سے اچھی نیت اور مضبوط ارادے کے ساتھ کئے گیے معاہدوں کی ضرورت ہے‘۔
مشرف نے کہا کہ پاکستان کئی شدت پسند تنظیموں کی سرگرمیوں سے پریشان ہے۔ القاعدہ، طالبان، حزب المجاہدین، لشکر طیبہ جیسی شدت پسند تنظیموں سے لڑنے کے معاملے پر دونوں ممالک کو الگ کو الگ نہیں سوچنا چاہیے، یہ ایک مشترکہ لڑائی ہے۔
بھارت کے بارے میں جنرل مشرف نے کہا کہ پاکستان کی طرح یہاں بھی شدت پسندوں کے درمیان تعلق بڑھ رہا ہے۔ بھارتی نوجوان شدت پسندی کی جانب مائل ہو رہے ہیں۔ یہ بات نہ بھارت کے لیے ٹھیک ہے اور نہ پاکستان کے لیے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان اگر اپنے تعلقات کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو پرانے جھگڑے بھلانے ہوں گے۔ جھگڑے کی سب سے بڑی وجہ مسئلہ کشمیر کا معقول حل نکالنا ہوگا اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب کنٹرول لائن کو غیر فوجی بنا دیا جائے، زیادہ سے زیادہ خود مختاری دی جائے اور کنٹرول لائن کی اہمیت کو ختم کیا جائے تاکہ لوگوں اور سامان کے نقل وحمل میں آسانی ہو۔.
انہوں نے کہا کہ یہ سب آج بھی ممکن ہے اگر نیت ٹھیک ہو۔
اسامہ بن لادنمشرف نے سياچين، سركريك، بھارت پاکستان کے درمیان پانی کے تنازعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ سب مسائل صحیح نیت کے بل پر سلجھائے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم ایٹمی صلاحیت والے ملک ضرور ہیں لیکن ہم ٹرگر بٹن پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ تنازعات پر سیاست بند ہونی چاہیے، لوگوں کے درمیان رابطہ بڑھایا جانا چاہیے، ویزا قوانین کو سہل اور لبرل بنایا جانا چاہیے، دونوں ممالک کے درمیان مواصلات اور نقل و حمل کے نظام کو ٹھیک کیا جانا چاہیے اور تجارت کو اصل معنی میں بڑھایا جانا چاہیے۔
اسامہ بن لادن کے پاکستان میں موجود ہونے پر پرویز مشرف سے سوال پوچھے گئے۔
اسامہ بن لادین کے بارے میں ایک صحافی نے یہ سوال کیا کہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے میں پاکستان ناکام رہا یا اس نےقصدا ان کو چھپا رکھا تھا؟ اس کے جواب میں پرویز مشرف نے کہا کہ اس معاملے میں پاکستان کے خفیہ نظام سے لاپرواہی ہوئی ہے۔ یہ فوجی غلطی نہیں تھی بلکہ حقیقت یہ تھی کہ ہم پتہ ہی نہیں لگا پائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ القاعدہ نے جب ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کیا تو دنیا کی سب سے مضبوط امریکی خفیہ نظام کو کیوں اس کا پتہ نہیں چل سکا۔ چار طیارے اڑے، امریکی فضائی علاقے میں داخل ہوئے لیکن سی آئی اے اس کا پتہ کیوں نہیں لگا سکی؟ جس طرح گیارہ ستمبر کے حملے میں سی آئی اے سے غلطی ہوئی شاید ویسی ہی غلطی اسامہ بن لادن کے معاملے میں پاکستانی خفیہ ایجنسیوں سے ہو گئی۔
Share this article :

0 comments:

Speak up your mind

Tell us what you're thinking... !

Most Popular Video !

Want a Google Adsense Account?